ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / ساتواں پے کمیشن:بجٹ 2017-18سے پہلے حکومت نے زبردستی خرچ پر روک کی دی ہدایت 

ساتواں پے کمیشن:بجٹ 2017-18سے پہلے حکومت نے زبردستی خرچ پر روک کی دی ہدایت 

Thu, 26 Jan 2017 12:58:44  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی،25؍جنوری (ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا )ساتواں پے کمیشن گزشتہ سال یکم جنوری سے لاگوہو گیاہے۔ مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں ایک فیصلہ لے کر اپنے ماتحت کام کرنے والے 47لاکھ مرکزی ملازمین کو تنخواہ میں اضافہ کا تحفہ دیا۔حکومت نے ساتویں پے کمیشن کی سفارشات کولاگوکرتے ہوئے تقریباََ23.55فیصد اضافہ کا اعلان کیا تھا۔ساتویں پے کمیشن کا فائدہ 53لاکھ مرکزی پنشن یافتگان کوملا۔یہ الگ بات ہے کہ مرکزی ملازمین اور پنشن یافتگان کے علاوہ اس پے کمیشن کا اثر ملک کے عام شہریوں پر بھی ہواہے۔مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کئی بار عوامی طور پر کہا ہے کہ تقریبا ایک کروڑ مرکزی ملازمین اور پنشن یافتگان کی بڑھی ہوئی تنخواہ دینے کے لیے حکومت کو مزید پیسے چاہیے ۔حکومت کے سامنے مالی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کے3.5فیصد رکھنے کاچیلنج ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ حکومت کو پورا یقین ہے کہ وہ مالی خسارے کو 2017-18میں تین فیصد تک رکھنے میں کامیاب ہوگی۔یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سرکاری محکمہ بجٹ آنے سے پہلے اپنے خزانے میں پڑے روپے خرچ کرنے کے لیے تمام منصوبوں کو منظوری دے کر اسے لاگو کرتے ہیں، تاکہ اگلے بجٹ میں رقم میں زیادہ کی دعویداری ہو، یہ بات الگ ہے کہ کئی محکمے اس کے باوجود اپنے پیسے خرچ نہیں کر پاتے ہیں۔وہیں اب حکومت نے اپنے تمام محکموں سے صاف طورپر کہا ہے کہ وہ اس بار یہ ذہن میں رکھیں کہ خزانے میں پڑے سبھی پیسوں کو خرچ کرنے کی ہوڑ نہ مچائے۔منریگا کو چھوڑ کر تقریبا باقی تمام منصوبوں کو نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو اس قسم کی ہدایت وزارت خزانہ کی طرف سے دی گئی ہے۔اس سلسلہ میں جب وزارت خزانہ کے ذرائع سے بات کی گئی ، تو ان کا کہنا تھا کہ ایک انتظامی اصول سا ہے جو ہر بار ہوتا ہے۔ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ سرکاری محکمے میں فنڈ کا غلط استعمال نہ ہو۔
غورطلب ہے کہ ساتویں پے کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے سے حکومت پر 1.02لاکھ کروڑ کا سالانہ خرچ بڑھا ہے۔موجودہ مالی سال میں تنخواہ اور پنشن کی مد میں ہوئے اضافہ کی وجہ سے حکومت کے خرچے میں تقریبا 10فیصد کا اضافہ ہوا گیا ہے، یہ تقریبا 258000کروڑ روپے ہے۔مرکز کے ساتویں پے کمیشن کی سفارشات کا اثر ریاستی حکومتوں کے ماتحت کام کرنے والوں تمام ملازمین پر بھی پڑاہے ۔ہر ریاستی حکومت پر تنخواہ میں اضافہ کے لیے کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کا دباؤ ہے ۔ابھی تک کچھ ریاستیں ہی اسے نافذ کر پائی ہیں۔جہاں پنجاب میں ابھی چھٹا پے کمیشن لاگو کیا گیا ہے وہیں، انتخابی ریاست اتر پردیش میں اکھلیش یادو حکومت نے الیکشن سے ٹھیک پہلے اسے لاگو کرنے کا اعلان کرکے سرکاری ملازمین کو لبھایا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریبا تین کروڑ لوگ اس ساتویں پے کمیشن کی سفارشات سے براہ راست طور پر متاثر ہوں گے۔مانا جا رہا تھا کہ بڑھی تنخواہ سے لوگوں کو ہاتھوں میں پیسے کی طاقت بڑھے گی اور اس سے آٹوموبائل علاقے میں تیزی آئے گی۔یہ سچ بھی ثابت ہواہے ،کیونکہ ستمبر کے مہینہ میں کاروں کی فروخت میں اضافہ درج کیا گیا ہے اور اس کے بعد سے یہ مسلسل جاری ہے۔اس کے علاوہ روز مرہ استعمال کی جانے والی اشیاء کی خریداری کے بھی بڑھنے کے آثار تھے ، جو معیشت میں تیزی کا ایک ثبوت رہا۔پے کمیشن کی سفارشات لاگو ہونے سے اسٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھی گئی اور سرمایہ کاری بڑھی ہے، یہی وجہ رہی کہ آٹو اور گھریلو استعمال کی چیزیں بنانے والی کمپنیوں کے حصص اوپر چڑھ گئے ہیں۔کچھ ماہرین کی رائے میں ساتویں پے کمیشن کی رپورٹ سے مہنگائی کی شرح بڑھنے کا بھی امکان تھا، یہ کچھ بڑھی بھی تھی، لیکن نوٹ بند ی نے اس کا پورا اثر ختم کر دیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نوٹ بند ی کی وجہ سے معیشت میں آئی تیزی کم ہو گئی ہے ، لیکن، مرکزی حکومت کا دعوی ہے کہ اس نوٹ بند ی کا اثر معیشت پر مثبت ہو گا اور کچھ دنوں میں اس کے نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔اقتصادی امور کے ماہرین کی رائے میں کمیشن کی رپورٹ میں جس طرح رہائشی الاؤنس میں اضافہ کی بات کہی گئی ہے اس سے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے شہروں تک میں کرایہ میں اضافہ ہونا طے ہے۔سابقہ پے کمیشن کی سفارشات کے بعد ایسا ہوتا رہا ہے۔واضح رہے کہ حکومت نے بھلے ہی اس کمیشن کی سفارشات کو کافی حد تک لاگو کر دیا ہے، لیکن ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے مراعات کو لے کر تذبذب برقرار ہے۔
ساتویں پے کمیشن کی رپورٹ میں مکان کرایہ بھتہ یعنی ایچ آراے پر بھی کچھ تبدیلی کی تجاویز دی گئی ہیں، کیونکہ بنیادی تنخواہ کو بڑھا کر ترمیم کیا گیا ہے، تو کمیشن نے سفارش کی ہے کہ زمرہ ‘’ایکس‘، ’وائی‘اور’زیڈ‘شہروں کے لیے نئی بنیادی تنخواہ کے سلسلے میں ایچ آراے بالترتیب 24فیصد، 16فیصد اور 8فیصد کی شرح سے قابل ادائیگی ہو گا ۔کمیشن نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ جب مہنگائی بھتہ 50فیصد سے زیادہ ہو جائے گا، تب ایچ آراے کی ترمیم شدہ شرح بالترتیب 27فیصد، 18فیصد اور 9فیصد ہوگی۔قابل ذکر ہے کہ نوٹ بند ی کی وجہ سے معیشت کی رفتار کچھ سست ہوئی ہے، لیکن اب بینکوں میں نوٹوں کی بھرمار ہے اور وہ سود کی شرح میں کمی کر رہے ہیں جس سے معیشت میں تیزی آنے کا امکان ہے ۔بینکوں نے ہوم لون کے ساتھ ساتھ آٹو لون میں بھی کمی کی ہے،اس سے مارکیٹ میں تیزی آنی شروع ہو گئی ہے۔ویسے بینکوں کے منیجروں کی رائے ہے کہ پے کمیشن کی سفارشات کے نافذ ہونے کے بعد ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں تیزی آ رہی تھی، نوٹ بندی نے اس سیکٹر میں آئی تیزی کوکافی متاثر کیا ہے۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین تنخواہ میں اضافے پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کرتے ہیں۔کچھ ماہرین اقتصادیات کی رائے میں اس پے کمیشن کی سفارشات کے نافذ ہونے کا اثر سروس سیکٹر پر بھی پڑے گا۔


Share: